0

قدرت کو شاید ہمارا عیسائی بننا منظور نہ تھا!

نیم درجن پادری و پاسٹر پیچھے پڑے تھے کہ نوجوان عیسائی مبلغ پئیر مارک ایسٹر تہوار کی مناسبت سے تین روزہ سیمنار کو خطاب کرنے آرہے ہیں،با صلاحیت نوجوان، سحر انگیز مقرر اور سکالر ہیں، سو آپ کو خصوصی دعوت ہے۔
میں جب بھی مذہبی اجتماعات ، فنکنشنز اور سیمنار و کانفرنسز میں گیا بورڈم کی وجہ سے پشیمان ہوکر آیا ، مذہبی تجربات سے سخت چڑ ہے۔ اسلامی، عیسائی، احمدی، بہائی، بدھسٹ جتنے اجتماعات میں گیا پختہ تر الحاد کیساتھ لوٹا۔

کل دعوتوں سے مجبور ہوکر گیا۔ موضوع سخن تھا”عیسیٰ تمام دنیا کو بچانے آیا تھا”۔
سیمینار حال میں داخل ہوتے ہی نوجوان مبلغ اور اس کی نوجوان بلونڈ بیوی سے تعارف کرایا گیا۔وہ جو شکسپیئر Twelfth Night میں ایک کردار Viola بارے کہتا ہے کہ She is the definition of youth وہ جوانی کی تعریف ہے ، وہی اس مبلغ کی بیوی پر
صادق آرہا تھا،سوچا واقعی یہ مبلغ معجزاتی طاقت رکھتا ہے۔۔میں تواُسی وقت آدھا عیسائی بن گیا۔
محفل کے آغاز پر صف اوّل میں محترمہ ہی کیساتھ بیٹھنے کا شرف عطا ہوا، مبلغ نے چار بار پاکستان کا نام لے کر ذکر کیا ،ایک جگہ دعویٰ کیا کہ پاکستان میں دھڑا دھڑ لوگ عیسائی ہو رہے ہیں! میرے لیے یہ چونکا دینے والی خبر تھی۔
پشتون مورخین اللہ بخش یوسفی ، بہادر شاہ ظفر کاکا خیل و غیرہ نے اپنی کسی کتاب یا محمد شفیع صابر نے اپنی ضخیم کتاب” تاریخ صوبہ سرحد” میں کہیں لکھا ہے کہ قیام پاکستان سے قبل ڈبگری گارڈن پشاور کے مشنری ہسپتال کے عیسائی مشنری ڈاکٹر نے ایک نوجوان پشتون کو متاثر کرکے عیسائی بنایا، یہ لڑکا والدین کی تنہا مردانہ اولاد تھی، باپ کو پتہ چلا،اسی وقت اسی اکلوتے بیٹے کو بلا یا، کہا بیٹا خود کو تیار کرو پشاور ڈبگری جانا ہے، شہر جانے کیلئے حسب روایت لڑکے نے خود کو سنوارا,والد نے پشتون سٹائل میں بندوق گلے سے لٹکائی اور کمر بند باندھا، باپ بیٹا دنوں اسی جگہ ڈبگری گارڈن اسی مشنری ہسپتال کے مین گیٹ پر آئے، باپ نے لڑکے کو سامنے کھڑا کیا،بندوق سے نشانہ برابر کیا اور سیدھا دل پر گولی مار کر اپنے اکلوتے بیٹے کو مار دیا!
نوجوان جسم زمین پر گر گیا تو والد نے بندوق پھینک کر بیٹے کا سر ران پر رکھا اور زار و قطار رونے لگا۰ سر پر بوسے دے کرکہتا تھا:

بیٹا ، کاش تم جوانی میں میرے لیے ایسی رسوائی کا باعث نہ بنتے ”۔
اس کے بعد نہ اس مشنری نے کسی کو عیسائی بنانے کی جرات کی نہ کوئی پشتون عیسائی بننے پر آمادہ ہوا”۔
موجودہ صدی کے آغاز پر کے پی میں افغان وار کی وجہ سے این جی اوز کا کاروبار عروج پر تھا، جماعت اسلامی پاکستان نے سیاسی کاروبار کیلئے اس کے خلاف ایک پروپیگنڈہ مشن شروع کیا۔ قاضی حسین احمد ہر تقریر میں کہتے “این جی اوز لوگوں کو عیسائی بنا رہی ہیں “۔ بشیر الدین اورکزئی صاحب پشاور میں تعینات آئی ایس آئی کے منجھے اور سلجھے ہوئے ڈائریکٹر تھے۔قاضی صاحب کو بلایا اور چیلنج دے کر کہا کہ مجھے ایک بندہ دکھائیں جو کسی بھی این جی او نے عیسائی بنایا ہو؟ بس ایک ہی مثال دیں پھر دیکھیں آج ہی ہم این جی اوز کا بوریا بستر کیسے گول کرتے ہیں۔ قاضی صاحب لاجواب ہوگئے !
سو مجلس کے اختتام پر مبلغ کو عرض کیا کہ برصغیر میں برٹش راج کے دور میں کمترین ذات کے کچھ ہندو عیسائی ہوئے تھے۔ آج ان کے احلاف اور اولاد ہی عیسائی ہوتے چلے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ یا اسکے بعد بمشکل کوئی عیسائی ہو ا ہوگا۔آپ اپنی اطلاعات درست کریں۔
ابھی سیمینار کا دوسرا سیشن تھا ۔ اہتمام کرنے والے پادری نے پھر تاکید کرکے بلایا،حسبِ سابق اس حقیقی مبلغہ کیساتھ نشست ہوئی۔ دل میں آج اس آفتِ جاں و دشمنِ ایمان کے ہاتھوں ایمان فروشی کے خیالات آتے جاتے تھے۰ ساتویں میں حفظ قران ، عنفوان شباب میں دورۂ حدیث ، عربی فارسی ادب کے دیوان ازبر کرنے پر کہیں جامعۃ البنات کی مدرسی نہ ملی۰ آج حفظ و تجوید، منیۃ المصلی ونورالایضاح ، ھدايہ و وقایہ ، سبعہ معلقات و مقامات ، متنبی و حسامی، تحریر سنبٹ و سیبیویہ سب ان ہاتھی دانت نما برہنہ ٹانگوں میں ڈالنے کا عزم مصمم تھا۰ کئی بار بپتسمہ و اصطباغ کا دلہا بننے کیلئے نئے جوڑے کا رنگ منتخب کرنے کا سوچا۔ نظروں کے سامنے منظر گزر رہا تھا کہ ساتھ بیٹھی محترمہ اپنے ان مرمریں ہاتھوں سے بپتسمہ کے پانی سے نکال رہی ہے۔ واحسرتا!
اختتامی سیشن میں سوال جواب شروع ہوئے۔ مبلغ سے سوال کیا کہ آپ کا موضوعِ سخن تھا “عیسی ٰ انسانیت کو بچانے آیا تھا”۔عیسیٰ خود بنی اسرائیل سے تھے اور متی کی انجیل آیت نمبر 15:24 میں حضرت عیسیٰ خود فرماتے ہیں :
I was sent only to the lost sheep of Israel.
میں صرف بنی اسرائیل کے گمشدہ بھیڑوں کو بھیجا گیا ہوں۔
اب جب عیسیٰ خود اپنے آپ کو صرف یہودیوں کو بھیجا ہوا کہتے ہیں تو آپ کا دعویٰ جھوٹا لگتا ہے۔ عیسیٰ اور آپ کے قول میں تضاد کیوں؟
دور کی کوڑیاں لانے لگا۔ عرض کیا اسی ایک آیت کی تشریح کریں۔ باقی آیات نہ لائیں۔ سٹپٹا گیا۔ سارے فنِ خطابت کی ہوا نکل گئی۔ چراغوں میں روشنی نہ رہی تو ایک اور سینئر پادری نشست سےاٹھا اور کہا میں جواب دیتا ہوں۔ بس کی بات نہ تھی۔ موجود مہان ہستی بشپ امداد کو آگئے۔ دور از کار تاویلات۔ ۔ تاویل بما لا یرضی بہ القائل۔ ۔
شاید قدرت کو ہمیں ملحد رکھنا ہی منظور ہے۔۔۔شاید ایمان بالکتاب مقدر نہیں ۔۔محفل کے اختتام پر وہ محترمہ بالکل روٹھی نظر آئیں ۔ جیسے ہی تقریر ختم ہوئی آنکھیں پھیر لیں اور پرس اٹھا کے شوہر کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلی گئیں۔
واقعی گورے جسم اور نیلی آنکھوں والیاں آنکھیں بدلنے میں دیر نہیں کرتیں۔
رہے نام اللہ کا!
رشید یوسفزئی

د خپلې رائے اظهار وکړئ

خپله تبصرہ ولېږئ