پروفیسر عبدالکريم جرمانوس ہنگری کے نو مسلم سکالر تھے. موسیقار، جنگجو، جاسوس، پروفیسر، ڈاکٹر، ڈپلومیٹ، فلاسفر سے ہوتے ہوئے ہنگری کے پارلیمنٹ ممبر بنے. یورپ کے واحد مسلمان تھے جن کی تصویر سرکاری سکہ پر بنی. رابندر ناتھ ٹیگور کے دعوت پر 1928 میں ھندوستان ائے تھے. اسلام پر ان کے لیکچروں میں ٹیگور خود بطور طالبعلم بیٹھتے تھے. اس کے بعد نہرو اور انڈیا کے دو صدور ڈاکٹر ذاکر حسین اور رادھا کرشنن کے دعوت پر انڈیا آتے رہے. لاہور میں ایک لیکچر کیلئے ائے تھے. ھزاروں لوگ سننے کیلئے جمع ہوئے. لوگوں کا اتنا جذبہ تھا کہ کئی لوگ نزدیک سے دیکھنے کی کوشش میں گر کر زخمی ہوئے. دہلی جامع مسجد میں اسلام کی حالات پر تقریر کرنے مدعو ہوئے. پانچ ھزار لوگ سننے ائے تھے. نزدیکی دیدار کیلئے دھکم پھیل میں خود بھی زخمی ہوئے. دوسرے دن دہلی کے انگریزی اخبار نے لکھا تھا کہ جرمانوس Abdul Karim Germanus was a living Quran زندہ قران تھے.
دہلی کے ایک سادہ فلیٹ میں قیام پذیر تھے. روزانہ ملاقات کی سعادت کیلئے انے والوں کی تعداد ہر لمحہ سینکڑوں میں ہوتی تھی جن میں ہندو، مسلمان، پارسی، عیسائی سب شامل ہوتے. حج کیلئے گئے تو سلطان عبدالعزیز نے شاہی خیمہ میں میزبانی کی. مصر میں جامع ازہر میں مقیم تھے. طہ حیسن، محمد حسین ھیکل، عبداللہ انال، توفیق الحکیم جیسے شعراء، ادباء، سکالرز، سیاست دان اور حکمران ان کے سامنے طفل مکتب کی طرح پیش آتے. اردن کی ملکہ دینا بنت عبدالحمید اور سعودی کے شہزادہ طلال بن عبدالعزیز ملاقات کیلئے قاہرہ ائے تو خوشی سے گھنٹوں انتظار کیا کرتے کہ جرمانوس خود اپنے معمول کے مطابق کمرہ ملاقات کو نکل ائے. ھنگری حکومت نے تمام اعلی اعزازت سے نوازا. پارلیمنٹ کا ممبر بنایا اور یہاں تک کہ اس کے تصویر کا سکہ بھی جاری کیا!
پروفیسر جرمانوس عصر جدید کا واحد اسلامی سکالر ہے جس نے مجھے مایوس نہیں کیا. عبدالرحمن الجبرتی، شیخ رفاعہ رافعی طحطاوی، جمال الدین اسد آبادی، مفتی محمد عبدہ، رشید رضا، سے لیکر مودودی و پرویز تک ہر اسلامی سکالر اپ پڑھیں اور اسکے بعد مزید مطالعہ جاری رکھیں. ایک موڑ ائے گا آپ ان سب سے مایوس ہوں گے. سب کی خمیر مولویانہ ہے. ان میں اور کٹر ملایانہ دیوبندی مولویت میں بہت کم فرق ہے. ان مصریوں و ساؤتھ ایشین ملاؤں میں بس عبا، پگڑی اور درازی و کوتاہئ ریش کا فرق ہے. مودودی کانوں تک دیوبندی. صحاح ستہ کی بنیاد ہلانے کے علاوہ پرویز تہی دامن بلکہ وہی کٹھ ملا . الا یہ کہ ملا سے کچھ منطقیت کی امید کی جاتی سکتی ہے، پرویز سے نہیں.۰۰۰خوبصورت اردو اور غیر منطقیت کی بے مثال مجموعہ….. یہ تمام، عربی نویس ہو یا اردو نویس محض لفاظی کے ماہر ہیں…. اور لفاظی شاعروں اور افسانہ نگاروں کے اوزار ہیں. سکالرز اور محققین کی نہیں.
عبدالکريم جرمانوس اپنی زندگی میں جس اوج و عروج کو پہنچا شاید ہی کوئی مسلمان سکالر پہنچ سکے. تاہم آج اسلامی دنیا میں اسکا نام اور کام دونوں غیر مانوس ہیں. غالبا مسلمانوں کی اجتماعی ذہن پر ملا کی کنٹرول جرمانوس سے مسلمانو ں کی بے اعتنائی کا بنیادی وجہ ہے…. جبکہ جرمانوس ملا کو مسلمانوں کی زوال کا سب سے بڑا سبب گردانتا ہے. لاہور سے 1953 میں اپنی شائع شدہ کتاب The Causes of the Decline of Islamic People میں پروفیسر جرمانوس لکھتا ہے کہ ملا پرابلم کا حصہ نہیں بلکہ خود پرابلم ہے. انہوں نے صرف اپنے دکان قائم رکھنے کیلئے مسلمانوں کو توہمات اور خرافات میں جھکڑے رکھا، انہوں نے اپنے مذہبی کاروبار کی خاطر سائینسی دریافت ، علمی پیشرفت اور ایجادات کا راستہ بھر پور طاقت سے روکا. یہ مسلمانوں کے اجتماعی مجرم ہیں.
کتاب کے ایک باب کے اختتام پر پروفیسر جرمانوس لکھتے ہیں کہ
“اسلامی دنیا میں مولوی، شیخ القرآن و الحدیث، شیخ الاسلام، ایت اللہ، مجتھد، حجتہ الاسلام، غوث اعظم اور قطب الاقطاب پیدا کرنے کے کارخانے لگے ہیں. لیکن ایک سردرد کی گولی اور سینے کی سوئی ایجاد کرنے والا سائنسدان نہ کبھی پیدا کیا ہے، نہ مستقبل میں کوئی امید ہے”.
ردعمل میں ملا کا انتقام دیکھیں. ملا کو دشمن بنانے کے بعد اسلامی دنیا سے جرمانوس جیسے علمی نابغے، سکالر اور محقق کا نام و نشان تک نیست و نابود کردیا گیا.
پروفیسر عبدالکريم جرمانوس سے میری تعارف کالج دور میں استاد محترم پروفیسر محمد ارشاد کی احمد ندیم قاسمی کے مجلے “فنون” میں شائع شدہ ایک سلسلے سے ہوئی جو انہوں استاد محترم علی عباس جلالپوری مرحوم کی کتاب “عام فکری مغالطے” پر تنقید میں لکھی تھی. اس کے بعد جرمانوس سے وابستہ ہر لفظ کی تعاقب میں رہا ہوں…… روزانہ درجنوں طالبعلم اور اہل مطالعہ پوچھتے ہیں کہ ہم موجودہ سوشل میڈیا لبرلزم کے الحادی رستاخیز میں اسلام پر کس عالم کو پڑھیں. میں اکثر کو ایک جواب دیتا ہوں: پروفیسر عبدالکريم جرمانوس!
رشید یوسفزئی
نشر مکرر
107